میرے خیال کے مطابق لاک ڈاؤن اور تنہائی میں گزارے وقت کو ہمیں اپنی زندگی کی غلطیوں کے بارے میں تجزیہ کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ کیا ایسے میں ہمیں اپنے غلط کاموں کو ترک کرنے اور خداوند کے مطابق درست حکمتِ عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
لمحات ایک جگہ پر مرکوز یعنی کیروس ہوجائیں ایسا اکثر نہیں ہوتا؟
کیروس یعنی کامل لمحات تین عناصر پر مشتمل ہیں (جس میں ایسا لمحا جس میں زیادہ سے زیادہ موقع سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے، ایسا لمحہ جب تبدیلی متوقع ہو، یہ ایک زبردست ہم آہنگی کا وقت ہوتا ہے جب تمام چیزیں ’’مل جاتی ہیں‘‘ اور سب کچھ ایک ترتیب میں آ جاتا ہے)۔
لیکن جب وہ یہ زبردست کام کرتے ہیں تو خدا کا وقت قریب آرہا ہوتا ہے ۔ جب موقعہ اپنے نقطہ عروج پر ہو تو وہ ’’مقررہ وقت‘‘ہوتا ہے ۔
میرےساتھ ساتھ اور بہت سے لوگ ہیں جن میں بے چینی بڑھ رہی ہے کہ آخر کار اس لاک ڈاؤن کا خاتمہ کب دیکھنا نصیب ہوگا ۔ لاک ڈاؤن ، کورووناوائرس ، ماسک ، سینیٹائزر اور اوئرنیس بہت زیادہ بولے جانے والے الفاظ بن چکے ہیں۔
ان دو مہینوں کے مختصر وقت میں ہم مجبور ہوگئے کہ نئے الفاظ ، مقابلہ کرنے کے نئے طریقے اور ساتھ رہنے کے نئے طریقہ کار سیکھیں۔
خاص طور پر ہم جیسے لوگ جودوسروں کا خیال رکھتے ہیں ہم میں ہمسایہ ہونے کا احساس بڑھ رہا تھا ، کیونکہ ہمارے پاس سوچنے کے لئے بہت وقت تھا۔ ہمارے اندران لوگوں کے بارے میں احساس بڑھ رہا تھا جو بھوکے تھے اور جس طرح شاید ہمارے مقابلے میں کم خوش قسمت تھے۔ پھر وہ لوگ ہیں جو پرواہ نہیں کرتے اور صرف اپنا ہی بھلاچاہتے ہیں۔ سوال یہ تھاکہ ’’کیا لاک ڈاؤن سے کوئی بہتری پیدا ہو سکتی ہے‘‘؟
جیسے میں نے پہلے بتایا کہ ’’سوچنے کے لئے وقت‘‘ مجھے اس مقام تک لے آیا کہ مجھے احساس ہوا کہ مجھے اِس بارے میں بات کرنی چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ جتنے بھی لوگ ان حالات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن سے ہمارا سامنا ہے وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ خدا نے اس وقت زمین کو موقعہ دیا کے وہ اپنی آب و ہوا کو بہتر کر سکے۔ اور انسانیت کو اس وقت رُکنے اور اپنے ماضی پر سوچ و بچار کرنے کی ضرورت ہےتاکہ وہ دوبارہ دوسروں سے رابطے قائم کرسکے۔ کیا یہ سب کچھ دنیا کو بدل کر رکھ دے گا جیسے ہمیں لگ رہا ہے ؟
گزشتہ ہفتوں کے دوران ہم نے بار بار یہ سنا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور آگے بہت کچھ بدل جائے گا۔ میری ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ ہم بحیثیت انسان بہت گھٹیاہو گئے ہیں اور ہمارے لئے کامیابی کا مطلب ہے کہ کون سب سے اوپر ہے۔ اس سارے عمل میں ، ہماری قدر نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے ، ہماری نظر میں اخلاقیات کی کوئی قدر نہیں۔ ہمارے نزدیک بدعنوانی اب معمول بن گئی ہے ۔ اب کسی بھی چیز کو ممنوع نہیں سمجھا جاتاہے
میرے خیال کے مطابق لاک ڈاؤن اور تنہائی میں گزارے وقت کو ہمیں اپنی زندگی کی غلطیوں کے بارے میں تجزیہ کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ کیا ایسے میں ہمیں اپنے غلط کاموں کو ترک کرنے اور خداوند کے مطابق درست حکمتِ عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
ہم میں سے کتنے افراد نے اس دوران بیٹھ کر سوچ بچار کیا تاکہ وہ ایک نئے آغاز کے لئے تیاری کرسکیں ۔ خالقِ حقیقی پر نئے سرے سے ایمان کے بغیر ہم ایسی زندگی کا آغاز نہیں کرسکتے۔ یہ ایک نئی بنیاد یا لانچ پیڈ ہوگا جس سے دوبارہ اڑان لی جا سکے۔ یہ ہماری مدد کرے گاتاکہ ہم اپنی نظریں دوبارہ اپنی منزل پر لگا سکیں تاکہ دوبارہ بنیادی باتوں کی طرف جا سکیں۔
ہم پوچھ سکتے ہیں کہ اس کی بنیاد کیا ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ میں آپ کو خدا کے ساتھ رشتے کے عہد کا حوالہ دے رہا ہوں جو خدا نے موسی اور بنی اسرائیل کے ساتھ قائم کیا ، جہاں احکامات دیئے گئے تھے۔ یہ وہ معیار تھا جس کی بنیاد پر اُنہیں قبائل میں مل جل کر رہنا تھا۔جو زندگی گزارنے کا ایک ایسی طریقہ کار تھا جو قابل قبول تھا۔ ان اصولوں کو بنیادی باتیں کہہ سکتے ہیں۔
میں نے شروع میں کہا تھاکہ مجھ سمیت بہت سے لوگ بے چین ہیں کہ آخر کار یہ لاک ڈاؤن کب ختم ہوگا۔ میں جھوٹ بولوں گا اگر میں یہ کہوں کہ میں عبادتی اجتماعات اور خدا کے لوگوں کے ساتھ مل جل کر پاک شراکت کی عبادت کو بھلا نہیں پایا۔ میرے دل کی گہرائی میں میرا یہ پختہ یقین ہے کہ تنہائی کا یہ وقت ہمارے کیروس لمحات ہوسکتے ہیں۔
ہمارے بہت سے ہم خیال لوگ ہیں جن کے مطابق کچھ نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ خدا کی کلیسیا پر اس کا کیا اثر ہوگا۔ کیا ہم نے خدا کی کلیسیا اور لوگوں کے لئے خدا کی مرضی کو درست اور کامیاب انداز میں پیش کیا ہے؟ ہماری بڑھتی ہوئی بے صبری ہم پر اثرانداز ہوتی ہے ، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس سارے سوالات کے جواب ہیں کہ یہاں سے آگے کیسے بڑھیں گے؟
ابرہام اپنی زندگی کے اہم لمحات پر ، جب اسے ایک بالکل نامعلوم مستقبل کے لئے خدا پر بھروسہ کرنا پڑا۔ خدا نے ابرہام کو بغیر بتائے ’’جانے‘‘ کے لئے کہا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہم ابرہام کی طرح خداوند پر ایمان رکھ کر وفاداری کے ساتھ آگے بڑھتے جائیں تاکہ خدا مقررہ وقت پر مستقبل ہم پر ظاہر کرتا جائے۔
میں یہ تجویز کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنی سوچ پر غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح کلیسیائی عبادات کو سرانجام دے سکتے ہیں تاکہ ایسے لوگ جو اپنے کاموں کی مصروفیت کی وجہ سے کئی دہائیوں سے کلیسیائی عبادات میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور ایسا کرنے کی وجہ سے وہ ’’بغیر کلیسیا‘‘ کے لوگ بن گئے تھے۔ اب کیسے کلیسیائی عبادات کو اُن کے پاس لے جا سکتے ہیں جہاں وہ موجود ہیں۔ شاید وہ وقت آگیا ہے کہ اب ہمیں سچ مچ ماہر خادموں کی ضرورت ہے جیسے کہ شاپنگ مال کے پادری، ہوائی اڈے کے پادری یا صنعتوں اور کارخانوں کے پادری وغیرہ۔
ہمیں ا س قسم کی گفتگو کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسے مصروف مقامات پر ایسی جگہیں قائم کی جائیں جہاں لوگ روحانی راہنمائی کے لئے جا ئیں اور وہ اُن کے لئے مختصر عبادات کروائی جائیں۔ شاید وقت آئے کہ جب لوگ چرچ کو اس طرح پھیلائیں جیسے کہ ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔میرے خیال میں کلیسیا میں خدمت کے لئے مقرر کئے جانے کی خدمت کی حدود ہماری موجودہ سوچ سے بہت زیادہ وسیع ہے ۔مسیح یسوع نے ہمیں حکم دیا ہے(متی ۱۸:۲۸۔۲۰) اور ہمیں اختیار دیا گیا ہے تاکہ ہم دلیری کے ساتھ اس کے مشن کو دوسروں تک پھیلائیں۔
میرا اندازہ ہے کہ میں یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کیا ہمیں حالات کے ساتھ مطابقت قائم کرنی چاہئے یا ایسے ہی سب کچھ چلنے دینا چاہئے؟ہم کس طرح سے سیکھے ہوئے اسباق کا اطلاق کر سکتے ہیں اور ابھی لاک ڈاؤن کے تجربے سے بہت کچھ سیکھنا ہےاور پھر بھی ہمیں اُمید کرنی چاہئے تاکہ ہم قادرمطلق خدا کے پرہیز گار اور فرمانبردار خادم ثابت ہو سکیں؟
جب ہم سوالات کے جوابات تلاش کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تاکہ آگے بڑھ سکیں ، آئیے ہم اس وقت کے گزر جانے کے بعد بھی ایمان میں اس عمل کو جاری رکھیں تاکہ ہم ہر طرح سے مضبوط ہو سکیں۔
فلورس انتھونی ۔اینگلیکن کمیونین آف پیرل ، جنوبی افریقہ کے پاسبان ہیں ،