جب میں یہ تحریر کر رہا تھا تو امریکہ کی ریاست مشی گن میں ایک بڑی آفت آئی تھی ۔ وہاں شدید بارش کی وجہ سے ڈیم تباہ ہو گیا جو ایک بہت بڑے سیلاب کا باعث بنا تھا۔ مشی گن کے ایک چرچ کے نوجوانوں میں کام کرنے والے پادری (یوتھ پاسٹر)کاٹیلی ویژن پر انٹرویو کیا گیا جس میں اس نے اپنی بدحواسی کا اظہار کیا ۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے گھر میں ہی رہنے کا حکم دیا گیا تھا اور اب سیلاب کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنے کا حکم دیا گیا ۔ اس کے چہرے پر تناؤ اور اضطراب واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا۔ پادری نے اپنا دل کھولا اور بتایا کہ کس طرح یہ تباہی اس کے ایمان کو چیلنج کررہی ہے اور وہ پریشان ہے کہ ان سب واقعات میں خدا کا کیا مقصد ہے ۔
ان نوجوانوں میں کام کرنے والے پادری (یوتھ پاسٹر)جیسی صورت حال اس دنیا میں کئی مرتبہ لوگوں کی ہوتی ہے ۔جب ایسا لگتا ہے کہ قدرتی آفات جیسے کہ خشک سالی اورسیلاب ، آندھیاں اور طوفان ، ٹڈی دل اور کورونا وائرس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے ساری دنیا کے لوگ بے چینی اور پریشانی کا شکار ہیں۔ برطانیہ کے قومی شماریات کے دفترنے بتایا ہے کہ تین چوتھائی برطانوی عوام پریشانی اور الجھن کی کیفیت میں ہیں ، اور اس میں شک کی کوئی بات نہیں کہ ایسا دوسرے بہت سے ممالک میں بھی ہے۔
لوگ مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ انہیں معلوم نہیں ہے کہ اب وہ کورونا وائرس سے بچنے کے لئے کیا کریں۔ وائرس کے بارے میں ہماراخوف روزبروز بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کسی بھی عادت کو اپنانے میں تین سے چھ ہفتوں کا وقت لگتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ اس عادت کو چھوڑ کر پرانے طریقہ کار پر واپس جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ پریشانی کی حالت میں ہم چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی شدید ردعمل کا اظہار کر بیٹھتے ہیں۔ پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ خاندانوں کو جان بچانے کے لئے اپنے گھروں میں ہی ایک ساتھ رہنا چاہئے، اب کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں ، اس بات سے بڑی الجھن اور تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔ معیشت کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کی جا رہی ہیں وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ غیر یقینی صورتحال خوف کو جنم دیتی ہے اور خوف سے دکھ اور تکالیف جنم لیتی ہیں۔
مسیحی ہوتے ہوئے ہمیں اپنی زندگی میں کیسے ردعمل کرنا چاہئے ؟ مشی گن کے نوجوانوں میں کام کرنے والے پادری (یوتھ پاسٹر) کی طرح کچھ لوگ سچ مچ کچھ سوالات بڑی ایمانداری کے ساتھ کچھ جاننے کی غرض سے کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنی مذہبی سمجھ بوجھ یا روحانیت کی سوچ کی وجہ سے ہمیشہ پریشان رہنے کی ضرورت نہیں ۔ یقیناًیہ حالات ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ ہم اپنے کُل حکمت کے مالک اور محبت کے سرچشمے خداوند خدا پر اپنے ایمان کو مزید مضبوط کریں۔کیونکہ وہی ہے جو آغاز ہی میں انجام سے واقف ہے؟ یقیناً ان حالات میں ہمیں خدا کی پروردگاری پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے ،ہمیں اس بات پر ایمان رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا آسمانی باپ سب سے بہتر جانتا ہے؟
آئیں خود کو یاد دلاتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح نےپھولوں کی نزاکت اور کھیت کی گھاس کی حالت کے بارے میں یہ تعلیم دی تھی کہ ’’جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی‘‘ (متی ۳۰:۶)۔ ہم آج یہاں ہیں لیکن کیا ہم کل یہاں ہوں گے؟ عمر رسیدہ افراد یا ایسے لوگ جو بیماریوں میں مبتلا ہیں ان کے لئے کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکت کے امکانات زیادہ ہیں۔ ہمارے پاس صرف آج کا دن ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی کل کے بارے میں پتہ نہیں لیکن اس پر ماتم کرنےکی ضرورت نہیں ۔ بلکہ یہ بات ہمیں زبردست موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم خداوند پر بھروسہ رکھیں اور اپنی زندگیاں اس کے ہاتھ میں دیں اور اس حقیقت کو قبول کریں کہ ہمارا باپ سب کچھ بہتر طورپر جانتا ہے۔ مسیحی جو دنیا کے ایسے حصوں میں بستے ہیں جہاں زندگی اکثر بیماریوں، حادثات، تشدد یا سخت حالات کی وجہ سے مختصر ہوجاتی ہے اکثر ان کا ایمان مضبوط اور آسان ہوتا ہے ، جن کی آزمائش روزمرہ زندگی میں لگاتار ہوتی رہتی ہے۔
مشی گن کے نوجوانوں میں کام کرنے والے پادری (یوتھ پاسٹر)نے بھی پریشانی کا اظہار کیا کہ خدا کوروناوائرس کے دوران دنیا کو کیا کہہ رہا ہے۔ اس سوال کا جواب دینا ذرا مشکل ہے۔ شاید ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے دنیا کو اپنے ہاتھوں میں رکھا ہے ، وہ ساری دنیا کی قوموں کی راہنمائی کرتا ہے اور بالآخر اس کا مقصد پورا ہوگا۔
لہذا اس بحران کے وقت میں مسیحیوں کو اپنے ایمان اور اعتماد میں بڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا انحصار خدا پر ہے۔ہمیں پریشانیوں کو اپنی زندگیوں پر حکمرانی نہیں کرنے دینی چاہئے ، ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے اور عاجزی اور توبہ کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے ۔ تین ہزار سال پہلے خداوند نے سلیمان بادشاہ کو اس بارے میں خاص طور پر بتایا کہ ایسی آفتوں اور بُرے حالات میں خدا کے لوگوں کو کیا کرنا چاہیے۔
اگر میں آسمان کو بند کر دوں کہ بارش نہ ہو یا ٹڈیوں کو حکم دوں کہ ملک کو اجاڑ ڈالیں یا اپنے لوگوں کے درمیاں وبا بھیجوں۔ تب اگر میرے لوگ جو میرے نام سے کہلاتے ہیں خاکسار بن کر دعا کریں اور میرے دیدار کے طالب ہوں اور اپنی بری راہوں سے پھریں تو میں آسمان پر سے سن کر ان کا گناہ معاف کروں گا اور ان کے ملک کو بحال کردوں گا(۲۔تواریخ۱۳:۷۔۱۴)۔
ڈاکٹر پیٹرک سکھ دیو ۔برنباس فنڈ کے بین الاقوامی ڈائریکٹر ہیں آکسفورڈ سنٹر برائے مذہب اور عوامی زندگی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔