ہوسیع ۱۴:۲
’’تو بھی میں اُسے فریفتہ کروں گااور بیابان میں لاکر اُس سے تسلی کی باتیں کہوں گا‘‘۔
جب بھی ہم پر ایسا وقت آتا ہے جب ہر طرف تاریکی دکھائی دیتی ہےتو عام طور پر ایسے میں ہمیں خدا کا طاقتور تجربہ ہوتا ہے۔ اُ س وقت ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ ہمیں صحرا میں لے جاتاہے تاکہ وہ ہم سے پیار سے بات کر سکے۔ جب ہم بیابانی تجربات سے گزرتے ہیں تو یہ ہمیں کمزور کرتے ہیں اور ہم اس کی باتیں سننے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ جب ہمارے حالات خراب ہوتے ہیں تو اس وقت ہم زیادہ سننے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ خداوند سے بہتر اس صورت حال کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ ہماری زندگی میں جب بُرے حالات آتے ہیں تو ہم خدا کی آواز سننے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور وہ توہمیشہ موجود ہوتا ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ ہوسیع کے حوالے میں ’’صحرا‘‘ اور ’’بولنا‘‘کے الفاظ استعمال ہوئے ۔ یہ دو الفاظ ایک جیسے ہی ہیں کیونکہ یہ انتہائی برے حالات اور ویران مقامات کے بارے میں ہیں جہاں خدا بڑے واضح طور پر ظاہر ہوا اور جہاں اُس نے اپنے لوگوں کی زندگیوں میں کلام کیا ۔
یہ سب کچھ کوہ حورب کے واقعہ میں بالکل درست تھا۔ کوہ حورب عبرانی میں ہر خوریو کوکوہ سینا یا ’’خدا کےپہاڑ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لفظ خوریو عبرانی لفظ خوریب سے ہے ، جس کا مطلب ویران کرنا ہے۔ یہ خدا کا ویران پہاڑ ہے جہاں قتل کرنے کے بعد بھی موسیٰ کو چھڑا یا گیا (خروج۱۱:۲۔۱۵)۔
بیابان میں جب بھی اُس کی ملاقات خدا کے ساتھ ہوئی۔وہ تجربات موسیٰ کے کردار میں بہتری لائے اوراُس کو اِس قابل بنایا کہ وہ خدا کے جلال کو ظاہر کرے۔ یہ اُس کی زندگی کی ہی بات نہیں بلکہ اس کے مرنے کے ۱۵۰۰ سال بعد مسیح یسوع اور ایلیاہ کے ساتھ پہاڑ چہرے کی تبدیلی کے واقعے میں بھی وہ ظاہر ہوا (متی۱۷)۔
جب برے حالات میں ہماری ملاقات خداوند کے ساتھ ہوتی ہے تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ آئیں اس بارے میں سمجھیں۔
صحرا میں خدا ہماری تباہ حالی کا علاج کرتا ہے
اکثر جب ہم فدیے کے بارے میں سوچتے ہیں تو اس سے ہماری مراد ابدی عذاب اور تباہ حالی سے آزادی ہوتا ہے جو ہم گنہگار انسانوں کی ضرورت ہےلیکن مسیح یسوع پہلے ہی اپنی موت اور قیامت کی بدولت یہ کر چکے ہیں ۔ تاہم ، ابا یعنی باپ ہمارا نجات دہندہ ہے جو ہمیں عذاب اور تباہ حالی کی دیگر اقسام سے چھڑاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ موسیٰ کو ملک مدیان میں ایک چرواہے کے طور پر جلاوطنی میں بھیجا اور وہاں سے اُس کو آزاد کیا اوراُس نے اسرائیل کو مصر کی غلامی سے چھڑایا۔
بیابان میں خدا حقیقی طور پر ہمیں آزاد کرتا ہے
’’خداوند ہمارے خدا نے حورب میں ہم سے ایک عہدباندھا‘‘ (استثنا۲:۵)۔ موسیٰ اسرائیلیوں کو بحر احمر کے پار لے گیا اور وہ ان کو کہاں لے جا رہا تھا؟ بیابان میں اسی پہاڑ کے پاس جس کو حورب کہتے ہیں جہاں خدا نے اُس سے معجزانہ طور پر جلتی جھاڑی میں اس سے بات کی ۔ خدا کے اس پہاڑ پر موسیٰ لوگوں کو ان کی آزادی کے بارے میں خدا کی شرائط بتاتا ہے’’کہ تم نے دیکھا کہ میں نے مصریوں سے کیا کیاکیا اور تم کو عقاب کے پروں پر بیٹھاکر اپنے پاس لے آیا۔ سو اب اگر تم میری بات مانو اور میرے عہد پر چلو تو سب قوموں میں سے تم ہی میری خاص ملکیت ٹھہروگے کیونکہ ساری زمین میری ہے۔ اور تم میرے لئے کاہنوں کی ایک مملکت اور ایک مقدس قوم ہوگے۔ ان ہی باتوں کو تو بنی اسرائیل کو سنا دینا‘‘ (خروج۴:۱۹۔۶)۔
بیابان میں خدا ہمیں قیمتی سبق سکھانا چاہتا ہے
بیابان میں خدا ہمیں قیمتی سبق سکھانا چاہتا ہے ، تاکہ ہم وہ سب کچھ حاصل کرسکیں جو خدا ہمیں دینا چاہتا ہے۔ ہم اکثر چیزوں کو جلدی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ’’خداوند ، مجھے اس خطرناک جگہ یا حالات سے جس میں میں ہوں نجات دلا ‘‘۔ اس کی جگہ ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ ’’مجھے بڑھا ، مجھے تربیت دے اور تیار کر تاکہ میں تیرے لئے مضبوطی سے کھڑا ہوسکوں!‘‘ جیسے ہم اپنے آسمانی باپ کو سنتے اور اُس سے سیکھتے ہیں کہ ہم کس طرح ترقی کر سکتے ہیں ۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمیں معجزانہ قدرت سے ہمیں سنبھالتا ہے تاکہ ہم سب کچھ برداشت کرتے ہوئے موسیٰ اور اسرائیل قوم کی طرح ترقی کرسکیں۔
جب ہمیں کوئی نہیں جانتا اُس وقت خدااپنے پیارے کو بلاتا ہے ، ’’تو بھی میں اسے فریفتہ کرلوں گا اور بیابان میں لاکر اُس سے تسلی کی باتیں کہوں گا‘‘ (ہوسیع۱۴:۲)۔جب ہم اسے بھول جاتے ہیں تو وہ ہمیں بیابان یعنی برے حالات میں لے جاتا ہے جہاں ہم اس پر انحصارکرتے ہیں تاکہ اسی کی اور صرف اسی کی آواز سن سکیں۔وہاں وہ ہم سے نرمی سے بات کرتا ہے۔ تاہم وہ جو کہتا ہے وہ ہمیں کرنا چاہئے تاکہ ہم آگے بڑھ کر موعودہ ملک میں داخل ہو سکیں اور جن چیزوں کا اُس نے وعدہ کیا ہے حاصل کریں۔
پال مرسلین ۔گیانا میں قائم برنباس فنڈ کے بین الاقوامی بورڈ کے رکن ہیں
Photo by Breanna Galley on Unsplash