۱۔کرنتھیوں ۹: ۲۴ ۔ ۲۷ پس مَیں بھی اِسی طرح دَوڑتا ہُوں یعنی بے ٹِھکانا نہیں۔ مَیں اِسی طرح مُکّوں سے لڑتا ہُوں یعنی اُس کی مانِند نہیں جو ہوا کو مارتا ہے (آیت ۲۶ )
تمام کھلاڑی خوراک کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور مسیحیوں کی خوراک یعنی زندگی کی روٹی خدا کا کلام ہے جو ہمیں مستقل اور مناسب طریقے سے لینا ہے(یوحنا ۶: ۳۵ ) مقدس پولوس رسول ہماری زندگی کو دوڑمیں حصہ لینے والے کے طور پر پیش کرتا ہے اور ایسی دوڑ کی بات کرتا ہے جس میں انعام کے ساتھ چند ذمہ داریاں بھی عائد ہیں انہی ذمہ داریوں کی وجہ سے خدا کے ساتھ وقت گزارنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر یوں لگتا ہے جیسے چرچ بھی زندگی کی رنگینیوں میں خلل کا سبب ہے دوسری طرف روز مرہ کے دباوٍٍ ہماری اور خدا کی دوستی میں خلل ڈالتے ہیں ( متی ۱۱: ۲۸۔ ۳۰ )
مگر اس ساری صورتِ حال میں خدا کو ایک تربیت کا ر کے طور پر لیتے ہوئے ایک کھلاڑی کی طرح جواب دینے کی ضرورت ہے ۔(آیت۲۵ ) تاحال یہ بات اہم ہے کہ خدا کی رہنمائی کا جواب دینے کے ذریعے کیسے اپنی صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور یہ ہماری کمزوریوں کو جاننے کے ساتھ ہمارے مخالفین کے بارے میں بھی ہے جو ہمیں نقصان پہنچانے کے در پے ہوتے ہیں اور بالآخر ہمارا انعام چھیننے کے خطرہ سے دوچار ہوتے ہیں۔
روحانی تشکیل فقط معاشرے کے امرا ہی کے لئے نہیں بلکہ ہم سب کے لئے ہے ۔ ایک باکسر جو ہوا میں مکے مارتا ہے وہ یہ توقع کر سکتا ہے کہ وہ جلد گر جائے گا مگر خدا نے ہمارے لئے مسیح یسوع کے اختیار کی موجودگی کا ایسا انتظام کیا ہے جس کے وسیلہ سے ہم موثر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں ۔(۲۔کرنتھیوں۴: ۸۔۹)مقصد کے ساتھ جینا ہی شاگرد کی زندگی ہے ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے جس کی بدولت ہم جیتنے کی تربیت حاصل کر سکتے ہیں ۔
غور طلب حوالہ جات: زبور ۱۸: ۱۶۔ ۴۵ ؛ یرمیاہ ۱۲: ۱۔۶؛ ۲۔تیمتیُھیس۴: ۱۔ ۸؛ عبرانیوں ۱۲: ۱۔ ۱۳
عملی کام : زندگی کی روٹی کے متعلق تربیت حاصل کرنے کے لئے آپ کس بات کو ترجیح دیں گے ؟
دُعا :اے خدائے قدوس مسیحیت کی ترجیحات کو سمجھنے میں میری مدد فرما۔آمین۔
میکسپِکسل سے لی گئی تصویر۔