۱۔ کرنتھیوں۲10:۔۱۶ ‘‘ لیکن روحانی شخص سب باتوں کو پرکھ لیتا ہے مگر خُود کسی سے پرکھا نہیں جاتا۔ خُداوند کی عقل کو کسی نے جاناکہ اس کو تعلیم دے سکے؟ مگر ہم میں مسیح کی عقل ہے (آیات ۱۵۔۱۶ )
ہم ذہن کو سوچ سے جوڑتے ہیں کہ سوچنے کی تربیت حاصل کرنے کے بعد میں آسانی سے خود میں رہتا ہوں۔ تصوراتی بہت سی چیزوں کی تشریح کرتا ہوں اور ان کے بارے ادراک بھی رکھتا ہوں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میری روک ٹوک میرے خیالات کے ساتھ کچھ مفید کام کر رہی ہو کیونکہ دماغ کسی شخص کا وہ حصہ ہوتا ہے جو سوچنے، جذبات کو محسوس کرنے ، اور چیزوں کے بارے فہم عطا کرتا ہے یہ بیان کرتا ہے کہ کلامِ پاک دل کے خیالات کو کیسے پرکھتا ہے سمجھنا علم جیسا نہیں ہے کیونکہ مسیحی سمجھ خدا کے بارے علم رکھنا ہے ۔
روحانی تشکیل وہ عمل ہے جس کے ذریعے ہم کمزور ہونے کے باوجود آگے بڑھتے ہیں (۱۔تھسلنیکیوں ۵: ۱۴ ) دوسروں کی قدر کرتے ہوئے مسیح کی تلاش کرنے کو ذاتی ذمہ داری سمجھتے ہیں (۱۔کرنتھیوں ۲: ۱۶ ) اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ پیشہ وارانہ تعلیم ہماری مہارتوں میں معاون ثابت ہوتی ہے مگر زندگی کی تشکیلِ نو کے لئے مکمل تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے فقط خدا کے روح کی مدد درکار ہوتی ہے (رومیوں ۱۲: ۲ ) کیونکہ اگر ہمارے ایمان کا مہور یہ ہے کہ خدا سب کچھ ہے اور ہر چیز پر قادر ہے تو ہمیں یہ جان لینا ہو گا کہ ہم خدا کے بغیر زندگی کے حقیقی مقصد کو سمجھنے سے قاصر ہیں ( افسیوں ۴: ۴۔ ۶ ) یہ عقلی طور پر مسیحی تصور پیش کیا گیا ہے مگر ہم فقط ایمان ہی کی بدولت مسیحی سچائی کو جان سکتے ہیں ۔
ماہرِ فلسفہ اور ماہرِ الہیات اس پر بحث کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ دونوں کا تعلق ہمیشہ سے ہے اور ہم ان کا ساتھ بھی دیتے ہیں مگر ہم خود کی تشکیل کے لئے روحانیت میں ایمان کو تلاش کرتے ہیں جبکہ غیر متوقع طور پر بڑی بے دردی سے زندگی کے سوالات کے جوابات کا تقاضہ ہم پر عائد ہو جاتا ہے جسے یا تو برطرف کیا جاسکتا ہے یا پھر خدا پر ایمان کے ذریعے قبول کیا جا سکتا ہے۔
غور طلب حوالہ جات: خروج ۲۰: ۱۔ ۲۱ ؛ حزقی ایل ۱: ۲۵۔ ۲: ۲ ؛ یوحنا ۱۰: ۲۲ ۔ ۳۲ ؛ ۱۶: ۷۔ ۱۵
عملی کام: ہمیشہ یہ مشکل درپیش ہوتی ہے کہ ناممکن نظر آنے کے باوجود ایمان کو برقرار رکھا جائے ۔کیا آپ یہ چیلنج قبول کریں گے؟
دُعا: خدا میرے ذہن کی تجدید کرتاکہ میں تیری اچھی ، خوش کن اور کامل مرضی کو پورا کر سکوں۔آمین’’
پِکسا بے سے لی گئی وِکی نن کی تصویر