پیدائش 3:8۔11 ’’اور اُنہوں نے خُداوند خُدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پِھرتا تھا سُنی اور آدمؔ اور اُس کی بِیوی نےاپنے آپ کو خُداوند خُدا کے حضُور سے باغ کے درختوں میں چِھپایا۔ تب خُداوند خُدا نے آدمؔ کو پُکارا اور اُس سے کہا کہ تُو کہاں ہے؟‘‘(آیات 8۔9)
کلام کے ابتدائی حصہ میں خدا ایک ایسا سوال پوچھتا ہے جس کا ہمیں ہر روز سامنا ہوتا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ ‘تم کہاں ہو؟’ آدم کی طرح ہم خدا کی نظروں سے بچنے کے لیے کہیں نہیں جا سکتے (زبور 139: 7۔12)۔ درحقیقت سوال کا جواب دو طر ح سے درکار ہے: ایک جہاں ہم اپنی جسمانی حیثیت کو بیان کرتے ہیں۔ دوسرا قدرے مشکل ہے یعنی ہماری زندگی کا اصل معنی اور مقصد کیا ہے؟
ہم میں سے ہر ایک اپنی جسمانی حالت سے زیادہ اپنے وجود کے معنی پر غور کرتا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو خدا ہمیشہ کرتا ہے جس کا جب ہم اخلاقی نقطہ نظر سے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں تو سوال کی وجہ بھول جاتے ہیں جیسا کہ فریسیوں نے دریافت کیا تھا۔ اس کے لیے دل کی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے آپ کو خدا کے مقصد کے مطابق ڈھال سکیں ۔ یہ خود میں کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو ہمیں ہدایت کرے بلکہ روح ہے ہمیشہ ایک رہنما ہے جس نے شریعت کو جنم دیا ہے اور جو خدا کے ساتھ ہماری ذاتی دوستی میں بڑنے کی ہدایت کرتا ہے (گلتیوں 3:21۔22)۔
تنہائی اور خوف کا ہمارے اذہان میں مستقل بسیرا خدا سے دوری کے باعث ہوتا ہے آدم اور حوا کی کہانی میں بھی نافرمانی ہی خوف کی وجہ بنی جس نے ان دونوں کو خدا سے چھپنے پر مجبور کیا ۔ اس سے جو زندگی کا واحد ذریعہ ہے – اس سے جس نے ان دونوں کو تخلیق کیا۔ ہمیں ہمیشہ صلیب پر ہمارے لئے کئے جانے والے کام کے ذریعہ خدا کے ساتھ کھلی دوستی کی تلاش کرتے رہنا ہے ۔ بپتسمہ کے ذریعے ہم پاک ہو جاتے ہیں اور آدم کی کھوئی ہوئی دوستی کو پھر سے بحالی مل جاتی ہے (رومیوں 6: 1۔4 )۔روز بروز ہم اس کے قریب رہنے کی کوشش کریں جو ہر روز ہمیں زندگی عطا فرماتا ہے۔
غور طلب حوالہ جات : استثنا 6:1۔12؛یرمیاہ 31:27۔40؛لوقا 11:37۔54 ؛گلتیوں ک3:23۔29
عملی کام : ‘آپ کہاں ہیں؟خود سے یہ سوال پوچھیں اور یمانداری سےسوچنے اور خدا کو جواب دینے کے لیے وقت نکالیں۔
دُعا : اے خدا میں تجھے ڈھونڈنے ، تیرے قریب آنے اور تجھ سے فریا د کرنے کو اولین ترین ترجیح دیتا ہوں ۔ آمین ۔
وِکیمیڈیا کومنس سے لی گئ مونڈِگر کی تصویر۔