یوحنا 12:1۔6 ’’یہ عِطر تِین سَو دِینار میں بیچ کر غرِیبوں کو کیوں نہ دِیا گیا؟ اُس نے یہ اِس لِئے نہ کہا کہ اُس کو غرِیبوں کی فِکر تھی بلکہ اِس لِئے کہ چور تھا اور چُونکہ اُس کے پاس اُن کی تَھیلی رہتی تھی اُس میں جو کُچھ پڑتا وہ نِکال لیتا تھا۔‘‘(آیات 5۔6)
مریم یسوع کے پاس آئی اور اس کے پاوں پر مہنگا اور نایاب عطر ڈالا جو کے مہمان نوازی کی علامت تھی ۔ ہم جانتے ہیں کہ فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے اور اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ جس فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے اسی کا الزام مریم پر لگایا گیا جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے نہایت قیمتی عطر ناصری کے پاوں پر ڈالا تھا جسے ہم آسانی سے فضول خرچی سے منسوب کر دیتے ہیں
جب کہ اگر اس پر ٖغور کیا جائے تو یہ علامتی رسم دراصل یسوع کی تدفین کی پیش گوئی تھی جس کے ذریعہ سے علامتی طور پر یسوع مسیح کو مسح کیا جا ررہا تھا ۔
یہ وہی عورت ہے جس کی تعریف یسوع مسیح نے کی تھی جب اس نے یسوع کی بات سننے کے لئے خود کو پیش کیا یعنی بات سننے کے لئے وقت نکالا جبکہ اس کی بہن مارتھا کاموں میں مصروف تھی یعنی یسوع کی عملی ضروریات کی فکر میں تھی (10:38۔42)۔ دونوں موقعوں پر یسوع کا خیر مقدم کیا گیا جس کے لئے یسوع کی طرف سے تعریف کی گئی ۔
اس کے برعکس یہودا یسوع کو دھوکہ دینے والامریم کو اپنے خود پسندانہ دعوےکے ساتھ ملامت کرتا ہے کہ اس کے اعمال فضول تھے یعنی اس کا کہنا تھا کہ جو عطر اس نے قدموں پر ڈالا وہ بہت نایا ب اور مہنگا تھا جسے بیچ کر غریبوں کی مدد کی جا سکتی تھی ۔
یہا ں اس بات پر غور کیا جا سکتا ہے کہ یسوع کا شاگرد فقط اس بات پر غور کرنے کے قابل تھا کہ عطر کی کتنی قیمت ہے نہ کہ اس بات پر کہ عطر بنانے والا کتنا قیمتی ہے
یہاں واضح ہے کہ یہودا نے اپنی ضرورت کے لئے غریبوں کو استعمال کیا ۔
ہمیشہ یہ خطرہ رہتا ہے کہ ہم جو اچھائی کی تجویز اور ارادہ کرتے ہیں وہ بھی درحقیقت ہماری اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہی ہوتا ہے ۔ جبکہ خود کو مکمل طور پر ہم زمین پر خدا کے مقصد کے لیے پیش کرتے ہیں۔
ہم صرف یسوع مسیح کی شخصیت پر غور کرنے سے ہی اس کی محبت کی گہرائی کو سمجھ سکتے ہیں اور مؤثر طریقے سے اپنے پیشہ کا ادراک حاصل کر سکتے ہیں۔
غور طلب حوالہ جات : احبار 8:1۔13؛زبور 133؛ متی 26:6۔13؛ لوقا 7:36۔50
عملی کام:ہمیں خود کی نمود و نمائش کے لئے نہیں بلکہ خدا کی پذیرائی کے لئے خود کو پیش کرنا ہے ۔
دُعا: خداوند مجھے غمنام رہنے دے تاکہ میری زندگی سے تُو سر بلند ہو۔ آمین۔‘‘