2022 website 1200x800 19

انسپلیش سے لی گئی اینی سپراٹ کی تصویر۔

میری 93 سالہ والدہ شدید درد کے باعث ہسپتال میں انتقال کر گئیں۔ اسے پھیپھڑوں میں درد کی شکایت کرتے ہوئے اندر لے جایا گیا تھا

اور جیسے جیسے دن گزرتے گئے درد کی شدت بڑھتی گئی کیونکہ اسے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور جلد ہی کینسر کی شدت ایسی بڑھ گئی کہ وہ بمشکل سانس ہی لے سکتی

تھی اس کے ساتھ ہی ساتھ درد کا یہ عالم تھا کہ وہ اس کی شدت ک تاب نہ لاتے ہوئے زور زور سے چلانے لگتیں اور ان کی یہ حالت دیکھ کر میں بھی بے اختیار ہوجاتا اور خود کو بے بس محسوس کرتا اس کے باوجود جب میں اپنی والدہ کا ہاتھ تھامتا تو وہ سکون محسوس کرتیں ۔ کچھ ہی دن گزرنے کے بعد آخر کا ر مجھ سے منگوائی ہوئی صلیب کو تھامے ہوئے وفات پا گئی ۔

میں نے ماں کے ساتھ بیٹھے بیٹھے خدا سے دعا کرنا شروع کی کہ وہ مداخلت کرے یعنی میری ماں کو اس تکلیف سے مخلصی دے یا اسے شفا دے، اسے درد برداشت کرنے کا فضل دے یا اسے لے جا تاکہ وہ اپنے دکھوں سے رہائی حاصل کرے لیکن خدا خاموش تھا ۔

مصائب کے ذریعے بڑھنا

تعلیمی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ تکلیف دہ واقعات جیسے بیماری، حادثات یا سوگ مثبت تبدیلیاں لا نے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں جیسے زندگی کی زیادہ ترجیحات، بگڑے ہوئے تعلقات اور ذاتی طاقت کا زیادہ احساس۔

یہ آفات نہ صرف ہماری زندگی کی توقعات بلکہ ہماری شناخت کو بھی بکھیر سکتی ہیں مثال کے طور پر اگر کوئی تندرست شخص اچانک کووِڈ کا شکار ہو جائے اور بمشکل سانس لینے یا حرکت کرنے کے قابل ہو۔

اس صورت ِ حال سے نپٹنے کے لئے مسیحیوں کو اس کے لیے غیر ایمانداران کے مقابلہ میں زیادہ لچکدار ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا بھروسہ خداوند یسوع مسیح پر ہے جس سے ہماری شناخت کا تعین ہوتا ہے جسے ہم کبھی بھی جھٹلا نہیں سکتے ہیں ۔

ماہر نفسیات ایما کاوناگ کے مطابق ایک ہی شدید صدمے کا شکار ہونے والوں کی ایک بڑی اکثریت بالآخر کچھ ہی عرصہ میں اپنی روز مرہ کے معمول میں ڈھل جاتی ہے

اس کے برعکس ان میں سے کچھ اس صدمے کے بعد کے تناؤ کی وجہ سے مستقل طور پر معذور ہو جاتے ہیں اور کچھ اس تکلیف دہ تجربے کو تخلیقی طور پر استعمال کر تے ہیں اور یہ سیکھتے ہیں کہ مصیبت کے بعد کیسے پنپنا ہے۔کیونکہ ایسے ہی تجربات کے بعد ہماری زندگی میں بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جن میں سے کچھ مثبت اور کچھ منفی اثرات رکھتی ہیں ۔

میں دو ” مشرقی اشخاص ” کو جانتا ہوں جو مشرقی لندن کی غربت میں پلے بڑھے ہیں ان کو اپنے آبائی گھر میں جسمانی اور جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس ماحول سے تعلق رکھنے والا ہر ایک دھونس، ہیرا پھیری، فریب اور لالچ میں گھرا ہوا ہوتا ہے ۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے بھی کچھ لوگ کسی نہ کسی طرح ایمانداری اور ہمدردی کے اصولات کے ساتھ زندہ رہتے ہیں

ان کی کہانی میں بھی کچھ ایسا ہی احساس نظر آتا ہے جیسا کہ ان کی نوعمر ی میں بالآخر شادی ہوگئی۔ انہوں نے اپنے بچوں کے لیے ایک مستحکم پیار کرنے والا گھر بنایا اور اپنے اردگرد کے سبھی لوگوں کی احساس اور درد کے ساتھ دیکھ بھال کی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ واقعی انہوں نے مصیبت کے بعد نتیجہ خیز ہونے کا راستہ تلاش کیا۔

الیگزینڈر سولزینیتسن روسی مجلس کے نمائندہ نے ایک دہائی سیاسی قیدیوں کے کیمپوں اور اندرونی جلاوطنی میں گزاری اور اس کے بعد وہ اپنے بچپن کے مسیحی عقیدہ میں واپس آئے اور لکھا:

آپ کو جیل  مبارک   ہو  جو  میرے   رہنے کے لئے
اور  زندگی گزارنے  کے لیے
بنائی گئی ۔
اس  میں بھوسے پر پڑے رہنے سے 
  مجھے احساس ہوا کہ  
 اعتراضِ زندگی خوشحالی نہیں ہے جیسا کہ ہمیں بتا یا گیا ہے۔
ہمارا فقط 
  انسانی روح کی پختگی پر
یقین  ہونا چاہیے ۔

ایسا نہیں ہے کہ ہم تکلیف کو محسوس کئے بغیر ہی تجربہ کار ہوئے ہم نے تکلیف کو محسوس بھی کیا اور یہ بھی جانا کہ مسیح آسمان پر اپنے نشانات کے ساتھ موجود ہے ۔ (مکاشفہ 5:6)۔

اس بات کو یاد رکھیئے کہ ہم خدا کی محبت میں قائم رہنے یسوع مسیح کی مثالی زندگی پر غور کرنے مصائب کے ذریعہ ترقی کرنے

ایمان میں مضبوط ہونے برداشت کرنے شکرگزاری کرنے دوسروں کی مدد کرنے اپنی صلاحیت کو بڑھانے مسیح کے ساتھ رفاقت قائم کرنے اور اپنے آسمانی گھر کے لئے بہتر طریقہ سے تیار ہونے کے لئے بلائے گئے ہیں ۔

الہی ہمدردی اور یسوع کی  قُربانی

مسیحی ہونے کے ناطہ ہم تثلیث ، خُدا کی تسلی اور مدد سے واقف ہیں (2 کرنتھیوں1:3)

وہ کہتا ہے! ’’تُم کو تسلّی دینے والا مَیں ہی ہُوں۔ تُو کَون ہے جو فانی اِنسان سے اور آدمؔ زاد سے جو گھاس کی مانِند ہو جائے گا ڈرتا ہے۔‘‘(یسعیاہ 51:12)

یہ سن لینے کے بعد ایسا سکون حاصل ہوتا ہے جو ہمدردی سے بالاتر ہے کیونکہ "آرام” کا اصل معنی طاقت اور ہمت دینا ہے ۔یعنی دوسر ے کی ترقی کے لئے اس کی حوصلہ فزائی کرنا۔

پرانے عہد نامے کے عبرانی لفظ ’’ناچاموnachamu ‘‘نے ایک مضبوط جذبات کی نشاندہی کی۔ بشمول غم میں تسلی اور ہمارے حالات کو ابدی نقطہ نظر سے دیکھنے سے ملنے والی راحت کی بھی نشاندہی کی۔

خُدا کا بیٹا ہماری طرح بن گیا ہماری آزمائشیں اپنے اوپر ایسی لے لیں (عبرانیوں 2:17۔18)۔ پھر چاہے جسمانی، نفسیاتی، جذباتی یا روحانی درد ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے وہ ہمارے ساتھ ہمدردی کرنے کا حقدار ہے (عبرانیوں 4:15)۔

ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ اِبلیس کی طرف سے آزمایا گیا ۔

’’اُس وقت رُوح یِسُوعؔ کو جنگل میں لے گیا تاکہ اِبلِیس سے آزمایا جائے۔ اور چالِیس دِن اور چالِیس رات فاقہ کر کے آخِر کو اُسے بُھوک لگی اور آزمانے والے نے پاس آ کر اُس سے کہا اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتّھر روٹِیاں بن جائیں۔اُس نے جواب میں کہا لِکھا ہے کہ آدمی صِرف روٹی ہی سے جِیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نِکلتی ہے۔ تب اِبلِیس اُسے مُقدّس شہر میں لے گیا اور ہَیکل کے کنگُرے پر کھڑا کر کے اُس سے کہا کہ اگر تُو خُدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئِیں نِیچے گِرا دے کیونکہ لِکھا ہے کہوہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حُکم دے گا اور وہ تُجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے اَیسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتّھر سے ٹھیس لگے۔یِسُوعؔ نے اُس سے کہا یہ بھی لِکھا ہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کی آزمایش نہ کر۔ پِھر اِبلِیس اُسے ایک بُہت اُونچے پہاڑ پر لے گیا اور دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُن کی شان و شوکت اُسے دِکھائی۔ 9اور اُس سے کہا اگر تُو جُھک کر مُجھے سِجدہ کرے تو یہ سب کُچھ تُجھے دے دُوں گا۔یِسُوعؔ نے اُس سے کہا اَے شَیطان دُور ہو کیونکہ لِکھا ہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کو سِجدہ کر اور صِرف اُسی کی عبادت کر۔ تب اِبلِیس اُس کے پاس سے چلا گیا اور دیکھو فرشتے آ کر اُس کی خِدمت کرنے لگے۔‘‘ (متی 4:1۔11)۔ اس نے غربت اور بے گھر ہونے کا تجربہ کیا (لوقا 9؛58)۔

وہ تنہائی اور غلط فہمی کے درد سے واقف تھا۔ وہ دوسروں کے دکھوں کو محسوس کرتا تھا (متی 9:36) بیمار معاشرہ کے خارجی افراد جیسے جذام کے مریض، ٹیکس جمع کرنے والے اور غیر معروف خواتین یا صلیب کے دامن میں اس کی اپنی ماں ۔ وہ ان سے کے دکھوں سے بخوبی واقف تھا ۔ وہ اپنے سوگوار دوستوں کے غم کے لیے رویا (یوحنا11:33۔35)۔ وہ یروشلیم کے لوگوں کی گناہ بھری ضد اور اس آفت کے لیے رویا جو وہ خود پر لا رہے تھے (لوقا19:41۔44)۔

ہم اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ اس کی شفقت اور سمجھ ہر قسم کے انسانی مصائب تک پھیلی ہوئی ہے جسے ہم برداشت کر سکتے ہیں پھر چاہے اس نے اپنی زمینی زندگی کے دوران اس کا تجربہ کیا ہو یا نہ کیا ہو۔

مثال کے طور پر وہ اپنے پیاروں کو پاگل پن میں دیکھ کر ان کی اذیت کو سمجھتا ہے جو آج کل کچھ معاشروں میں ایک بڑھتا ہوا عام تجربہ ہے

۔ یہاں تک وہ پاگل پن کے مریض کی پریشانی، مایوسی اور خوف کو ذاتی طور پر سمجھتا ہے

اور جب کوئی اور ان تک نہیں پہنچ سکتا تو وہ ان کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے ۔درحقیقت وہ ہمارے احساسِ جرم اور ندامت کے درد کو سمجھتا ہے حالانکہ اُس نے خُدا کے خلاف کبھی کوئی گناہ نہیں کیا اور نہ کبھی کوئی ایسا فیصلہ کیا جو اُس کے باپ کی مرضی کے مطابق نہ ہو۔

یسوع مسیح کے کچھ دشمن تھے جو اسے ختم کرنا چاہتے تھے ا

اسی دوران اس کے ایک دوست نے اسے ان کے حوالہ کر دیا ۔

جب یسوع کے دوستوں نے اسے ناکام کیا تو ایک فرشتہ اسے مضبوط کرنے کے لیے آیا لیکن اس کے باوجود اس کا پسینہ خون کے قطروں کی طرح گرا جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسے کتنی بڑی ہولناکی کا سامنا تھا ۔

چند گھنٹوں کے اندر ہی اس پر جھوٹا الزام لگایا گیا ا ور قانونی سماعتوں کے ایک مضحکہ خیز سلسلہ میں وہ مجرم پایا گیا ۔ اس کی آخری جسمانی آزمائش کوڑوں سے شروع ہوئی اور مصلوبیت پر ختم ہوئی۔

اس کی روحانی آزمائش کا ہم بمشکل تصور کر سکتے ہیں کیونکہ اس نے انسان کو بچانے کے لئے خود کو خالی کر دیا ۔(فلپیوں 2:7)۔

خدا کے جلال کی چمک (عبرانیوں 1:3) اور ’’باپ کی جان کے پیارے‘‘ کے لیے ایسی رسوائی کا سامنا کرنا کیسا ہونا چاہیے؟

اُس کے لیے کیسا ہونا چاہیے جس کے ذریعے ہر چیز کو اُس کی اپنی تخلیق یہاں تک کہ اُس کے اپنے لوگوں کے ذریعے رد کیا گیا تھا (یوحنا 1:3،10،11)؟

پاک اور بے گناہ مقدس کے لیے دنیا کے گناہوں کو برداشت کرنا کیسا ہونا چاہیے؟ خدا بیٹے کا خدا باپ سے الگ ہونا کیسا ہونا چاہئے؟

اس کی پکار کے پیچھے چھوڑنے کی کیا اذیت چھپی ہوئی ہے یعنی ” اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟” (مرقس 15:34)؟

پہلے شہید ستفنس کو آسمان، خدا اور یسوع کی محبت سے نوازا گیا جس نے سنگسار ہونے سے موت کی آزمائش تک اسےمضبوط کیا ہوگا (اعمال7:55۔60)۔

لیکن یسوع کو اس کے بالکل برعکس تجربہ تھا اس کی سب سے بڑی ضرورت کے وقت آسمان اس کے لیے بند ہو گیا اور وہ ہمارے گناہوں کے باعث اپنے آسمانی باپ سے کٹ گیا۔

تثلیث کی تیسری ہستی روح القدس بھی ہمارے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے اور ہمارے دکھوں میں ہمیں برقرار رکھتی ہے۔ اس کا خلاصہ نئے عہد نامے میں لفظ parakletos کے ذریعے کیا گیا ہے۔

’’یہ ایک اتحادی، ایک مشیر، عدالت میں ایک دفاعی وکیل تھا  لیکن بنیادی معنی یہ تھا کہ وہ شخص جو کسی اور کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی اور حمایت کے لیے آئے۔‘‘

الہی parakletos ہمیں ہمت اور طاقت سے بھر دیتا ہے  جو ہمیں ثابت قدم رہنے کے قابل بناتا ہے۔ اس لفظ کا ترجمہ بہت سے بائبل  مقدس  میں "تسلی بخش” کے طور پر کیا گیا ہے (یوحنا 14:16،26؛ 15:26؛16:7)۔

new

ا نسپلیش سے لی گئ  ارینہ شیشکینا کی تصویر۔

’’وہ تیرا سر کچل دے گا‘‘ (پیدائش 3:15)

یاد رکھیئے کہ خُدا پہلے ہی اِبلیس کو شکست دے چکا ہے اور وہ اس سے نمٹنے میں ہماری بھی مدد کر سکتا ہے جیسا کہ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ (پیدائش 3: 15) وضاحت کرتی ہے کہ کلیسیا کے ساتھ اِبلیس کی دائمی جدوجہد کیسے شروع ہوئی اور پھر اس کی شکست کیسے ہوئی

جو یسوع کی صلیب پر فتح کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ ہمارے گناہوں کے لیے مرنے سے (جسے ماہرین الہٰیات نے متبادل کفارہ کے طور پر بیان کیا ہے) مسیح نےاِبلیس پر فتح پائی۔

"خدا نے نیکی کا ارادہ کیا”

لیکن خدا اِبلیس کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم مقدس یوسف کے حوالہ سے جانتے ہیں کہ اس نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ ’’تم نے مجھے نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا تھا لیکن خدا نے اسے بھلائی میں بدل ڈالا‘‘ (پیدائش 37:18۔28؛50:20)۔ اس واقع میں خدا کی بھلائی کا تجربہ یوں کرتے ہیں کہ یوسف کے بھایئوں نے اسے مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا اور خدا نے اسے سنبھالا یعنی مرنے نہ دیا پھر انہوں نے اسے بیچ ڈالا اور آخر کا ر وہی بکا ہوا بھائی ہی ان کے لئے بھلائی کا ساماں ہوا یعنی اسی کے وسیلہ سے ان بیچنے والے بھا یئوں کو خوراک میسر ہوئی ۔ ہمیں قبول کرنا ہو گا کہ خدا بھلا ہے جو برائی سے بھلائی پیدا کرنے کی قوت اور قدرت رکھتا ہے ۔

برائی سے اچھائی نکالنے کی خدا کی صلاحیت کا علم مصائب میں امید پیدا کر سکتا ہے۔

یہ ابدی تناظر کا حصہ ہے جس کے ساتھ ہمیں اپنی موجودہ مشکلات کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ "ہر حال میں شکر ادا کرنے” میں ہماری مدد کر سکتا ہے (1 تھسلنیکیوں 5:18)۔

شاعر ولیم کاؤپر (1731-1800) جس نے شدید نفسیاتی مسلہ کا بار بار مقابلہ کیا تھا اس نے بہت سے بھجن لکھے وہ خاص طور پر اس بات پر توجہ مرکوز کرتا ہے کہ کس طرح مصیبت ایک ایسی نعمت ہو سکتی ہے جس سے ایک مسیحی بچنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس نے غالباً اس آیت کو ذہن میں رکھا تھا جو ہمیں بتاتی ہے کہ ’’خُداوند اُن لوگوں کی تربیت کرتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے‘‘ (امثال 3:12)۔

یہ میری خوشی ہے۔
کہ مجھے  صلیب کا سامنا کرنا پڑا 
لیکن نجات دہندہ کو  جاننے
کی ضرورت ہے  جو 
ہر نقصان  سے 
 اور آزمائش    سے بچانے 
کی قوت  رکھتا ہے 
اس کو حاصل کرنے کے بعد بھی 
ہم مصائب کا شکا ر ہو سکتے ہیں 
لیکن  اس سب کے باوجود عاجزانہ ایمان کے ساتھ دیکھنا
محبت  کی علامت  ہے
جو  میرے لیے خوشی کی بات ہے۔
صیون میں خُدا مصیبت، درد اور مشقت کا
 بیج بوتا ہے۔
یہ ابھرتے ہیں اور ماتمی لباس کا گلا گھونٹتے ہیں
میں جان  گیا ہوں کہ 
آزمائشوں سے وعدہ   میں پختگی   آتی  ہے
آزمائشیں  دعا   کو نئی زندگی دیتی ہیں۔
آزمائشیں مجھے اس کے قدموں میں لاتی ہیں
تاکہ میں مزید اسے سمجھ سکوں 

ہم مقدس ایوب کی زندگی پر غور کر سکتے ہیں جو مصیبت کے عالم میں بھی جانتا ہے کہ خُدا موجود ہے جو اُس کے ساتھ وفادار ہے اور یہ احساس اسے درد میں بھی خوشی دیتا ہے (ایوب 6:10)۔

دوسروں کو تسلی دینا

دراصل ہمارا اپنا دکھ ہمیں دوسروں کے دکھوں میں تسلی دینے کے لیے تیار کرتا ہے اور یہ بھی ہمارے دکھ کو معنی اور مقصد دیتا ہے ۔یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ ہمیں دوسروں کو تسلی دینے کا اعزاز حاصل ہے جو ہم نے خود خدا سے حاصل کیا ہے (2 کرنتھیوں 1:4)۔

مصائب کی گہرائیوں میں بہت سے لوگوں کو جارج میتھیسن (1842-1906) کی طرف سے لکھی گئی ایک تسبیح سے حوصلہ افزائی ہوئی ہے جس میں کچھ اس طرح کی تحریر کا ذکر ملتا ہے

اے محبت جو مجھے جانے نہ دے

میں اپنی تھکی ہوئی روح کو تجھ میں آرام  دیتا  ہوں

میں خود کو وہ زندگی واپس دیتا ہوں جس کا  میں مقروض ہوں

کہ تیرے سمندر میں اس کا بہاؤ گہرائی میں ہے

جو امیر تر ہو سکتا ہے  اور بھر پور ہو سکتا ہے۔

ہولناک ذاتی المیہ پر لکھی گئی ایک اور حمد ہے:

یہ ٹھیک ہےیہ میری روح کے ساتھ اچھا ہے۔

Horatio Spafford خاندان کو مالی تباہی اور پانچ بچوں کی موت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کی تسبیح کا موضوع یہ ہے کہ ہمارے ظاہری حالات کچھ بھی ہوں حقیقت یہ ہے کہ مسیح ہمارے گناہوں کو دور کرنے کے لیے مر گیا ہے اس لیے ہم خوش ہیں ۔

مزید برآں ہم مسیح کی دوسری آمد کے منتظر ہیں۔ ایسی ابدی امیدیں بجا طور پر مصیبت زدہ خدا کے بندوں کے لیے تسلی کا باعث ہیں پھر چاہے وہ اندرونی تباہی اور ویرانی سے ہی کیوں نہ گزر رہے ہوں ۔

اے خدا اس دن کو ہم پر جلدی عیاں  فرما

جب ہمارے ایمان کی تجدید ہو گی

تو ہمیں نظر آئے گا

تب تمام کے تمام

بادلوں کو ایک طومار کی طرح پیچھے ہٹا دیا جائے گا۔

اگر مصائب کو قبول نہ کیا جائے تو یہ ہمیں مشتعل کر نے کے ساتھ ساتھ ہمارے ایمان کو بھی تباہ کر سکتے ہیں ۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مغرب میں نوجوانوں کے گرجا گھروں کو چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ ذاتی تکلیف (اپنی یا دوسروں کی) ہے۔ جب وہ اس مسئلہ سے دو چار ہوتے ہیں تو اُن کا ایمان ناکام ہو جاتا ہے۔

میں ایک پرعزم مسیحی عورت کو جانتا ہوں جس کی شادی شہر کے ایک امیر تاجر سے ہوئی جن کی کوئی اولاد نہیں تھی اس نے مجھ سے ایک بار بیان کیا کہ وہ اس کمی سے پہلے کبھی تکلیف کو نہیں جانتی تھی۔

کچھ ہی عرصہ میں اس کا شوہر ریٹائر ہوگیا جس کے ساتھ فرست کے کچھ سہانے لمحات گزارنے کی وہ ہمیشہ سے منتظر تھی مگر وہ ایسا نہ کر سکی کیوں ریٹائر ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کا شوہر باتھ روم میں پھسلنے کے باعث انتقال کر گیا ۔

تکلیف کے ان تجربات نے اسے تباہ کر دیا۔یوں معلوم ہوتا تھا گویا خدا پر سے جس کی وہ ہمیشہ وفادار تھی اس سے اس کا بھروسہ اٹھ سا گیا ہے وہ تلخ اور دکھی ہو گئی اور کبھی صحت یاب نہیں ہوئی۔

مصائب کو گلے لگانا

مسیحیوں کا روایتی طور پر عقیدہ رہا ہے کہ مصائب کے وقت وہ خدا کی موجودگی اور طاقت کا گہری سطح پر تجربہ کر سکتے ہیں۔

ایک مسیحی جس کے دل میں صلیب کا درد ہے وہ ایمانداروں کو سکھاتا ہے کہ وہ مصائب کو قبول کریں نہ صرف اسے قبول کریں اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کریں بلکہ مسیح کے ساتھ رفاقت کے ایک ذریعہ کے طور پر خوشی کے ساتھ اس کا استقبال کریں۔

بالآخر  ہمارے پاس دکھ اٹھانے والے خادم  خداوند یسوع  مسیح کی مثال ہے جو ہمیں یہ بتانے کے لیے کہ کس طرح دکھ اٹھانا ہے اس  دنیا میں رہا کیا اور  تجرباتی طور سے سکھایا کہ ہم اس  طریقہ کا ر کو کیسے اپنا سکتے ہیں۔

اور پھرہم  اس طریقہ کار کا   مطالعہ بھی کر سکتے ہیں ؛

’’اِس لِئے کہ اگر تُم نے گُناہ کر کے مُکّے کھائے اور صبر کِیا تو کون سا فخر ہے؟

ہاں اگر نیکی کر کے دُکھ پاتے اور صبر کرتے ہو تو یہ خُدا کے نزدِیک پسندِیدہ ہے۔ 

اور تُم اِسی کے لِئے بُلائے گئے ہو

 کیونکہ مسیح  بھی تُمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تُمہیں ایک نمُونہ دے گیا ہے

 تاکہ اُس کے نقشِ قدم پر چلو۔‘‘

(1 پطرس2:20۔21)

Dr Patrick Sookhdeo is the International Director of Barnabas Fund and the Executive Director of the Oxford Centre for Religion and Public Life.