زندہ

  ان سپلیش پر ،تصویر بجانب جان ڈیوڈ

اور اِس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تا کہ خُدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامِل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔ (آیت 2)

کسی بھی نامیاتی چیز کو غلط جگہہ پر رکھنےسے وہ گل سڑ جاتی ہے۔ اِبتدائی طور پر تو یہ نظر نہیں آتا، لیکن جب چیزیں سڑ جاتی ہیں تو اِنکو دوبارہ ا ِبتدائی حالت میں بحال کرنا مُشکل ہوتا ہے۔ یہ مثال ہماری فانی زندگی کی حقیقت کی پُورے طور پر نُمائندگی کرتی ہے۔ ہم بگاڑ اور اصلاح کے درمیان ایک جنگ میں مصروف عمل رہتے ہیں۔

خُداوند یسُوع اِس بات کی وظاحت کرتا ہے کہ کیسے ہماری آنکھ فِطری طور پر اِس دُنیا کی چیزوں کی طرف لگ جا تی ہے جِن کی کوئی باطنی حیثیت نہیں ہے۔

یہ دیکھتے ہوۓکہ ہم فطری طور پر کردار کی خرابی کی طرف راغب ہوتے ہیں ( پیدائش 3 باب 6 آیت)، ہمیں جانتے بوُجھتے ہوۓ، دانِستہ عمل کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے قدموں کی اِصلاح کی طرف راہنمائی کریں ۔ اور خُدا کا کلام ہِدایت سے بھرا ہوا ہے کہ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں۔

ضرور ہے کہ ہم میں سے ہر ایک یہ پرکھے اور تسلیم کرے کہ خُدا کی مرضی کیا ہے۔ اِسے نہ تو کبھی فرضی سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اِسے معمولی بات کے طور پر لیا جا سکتاہے، اور اِس کی بُنیادیں خُدا کے کلام کے اندر ہیں۔

ہم اکثراپنی خُود تشخیص، دوسروں کی طرف سے اپنے بارے میں لگائی ہوئی قدر کی بُنیاد پر کرتے ہیں۔ یا کام میں اپنی کامیابی، دولت بنانے، حتٰی کہ عوام میں اپنی خیراتی خدمات کی بُنیادپر کرتے ہیں۔

تاہم، صرف ایک ہی قدر جولامحدُود اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ خُدا کی نظر میں ہماری کیا قدر ہے۔ کیا یہ ہماری خوداعتمادی کی ضروُرت کو پُورا کرنے کے لئےکافی ہے؟

قُدرتی طور پر ہم خود کو معروضی اعتبار سے ناپنے کی کوشِش کرتے ہیں ، ایک ایسی چیز جِس کی آسا نی سے دوسروں کی طرف سے بات اور تعریف ہوتی ہے۔

پھِر بھی ہم جو بھی نیکی کرتے ہیں وہ سب خُدا کے حضور” گندی دھجیوں” کی مانند ہیں، ( یسعیاہ 64 باب 6 آیت)، ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم صرف خُدا کی قبوُلیت اور مُحبت میں اعتماد اور اِطمینان حاصل کرتے ہیں۔

عاجزی کا اِظہار اُس وقت ہوتا ہے جب ہم خُدا کے فضل کے آگے بِلکل خاموش کھڑے ہونے پر راضی ہوں۔ خُدا سے شناسائی ہی میں ہماری معنی خیز بقاء کی بُلندی ہے ۔

ایوب 14: 22-13, یسعیاہ 64: 8-1, 2-کرنتھیوں 4: 18-7,  1-پطترس 1: 21-13



عملی اِقدام:   اگر آپ عدمِ تحفظ سے جدوجُہد کرتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ آپ خُدا کے ساتھ اِس پر بات کریں۔  شخصی طور پر آپکے لئے یہ بات کیا معنی رکھتی ہے کہ تمام جہانوں کا خالِق   آپ سے مُحبت کرتا ہے؟

دُعا : اے خداوند، کیا میں جان سکتا ہوں کہ میری اصل قدر تجھ سے محبت کرنے میں ہی پائی جاتی ہے۔ آمین۔