1۔کرنتھیوں 4:4۔ ‘‘پس جب تک خُداوند نہ آئے وقت سے پہلے کِسی بات کا فَیصلہ نہ کرو۔ وُہی تارِیکی کی پوشِیدہ باتیں رَوشن کر دے گا اور دِلوں کے منصُوبے ظاہِر کر دے گا اور اُس وقت ہر ایک کی تعرِیف خُدا کی طرف سے ہو گی۔’’(آیت 5)
مسیحیت کی بے مثال خوبصورتی یہ ہے کہ باوجود اس کے ہم فانی ہیں خدا کی حضوری میں رہتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہر روز اس سے مل سکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مسیحیت محض ایک فلسفیانہ تصور ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری خدا کے ساتھ دوستی کو ظاہر کرتی ہے اور اگر ہم یسوع المسیح کی تعلیمات کو محض ضابطہ کے طور پر سمجھیں تو حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی فطری صلاحیت سے کبھی بھی پورا نہیں اتر پایئں گےکیونکہ رشتوں کا دارومدار اعتماد پر ہے اور خوف کے ذریعے اطاعت کا عمل فقط رِیاضَت ہے اعتماد سے رشتہ محبت کو جنم دیتا ہے جبکہ اطاعت خوف پیدا کرتی ہے ۔
چونکہ خدا محبت ہے اس لئے ہمیشہ ہمیں سوچ بچار کا موقع دیتا ہے اس سے وہ ہمیں اپنی قربت میں رہنے کے لائق بناتا ہے جب خدا ہمیں اپنی قربت عطا فرماتا ہے تو اسے احساس یا عقل سے نہیں ناپا جاسکتا کیونکہ یہ ہمیشہ ساتھ رہنے والی حقیقت ہے (متی 28 : 20)جب بات خدا ئے واحد کی موجودگی کی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے احساسات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس کی بنیاد فقط ایمان پر اور زندہ خدا کے وعدہ پر ہے جو انسانی ردِ عمل اور اس کی صلاحیتو ں سے کہیں بالاتر ہے۔
حقیقت میں ہم اسے عقلی ادراک کے ذریعے سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں جو کہ ناممکن ہے جو کہ خدا کو ناپسند بھی ہے کیونکہ وہ ایمان کے ذریعے سے اپنا آپ ہم پر ظاہر کرنا چاہتا ہے ایسی با ت نہیں ہے کہ ہمیں ایسی چیزوں کے بارے سوچنا نہیں ہے سمجھنا یہ ہے کہ احساس محض انسانی طریقہ ہے جسے ہم عام زبان میں ایک فارمولا بھی کہہ سکتے ہیں جس کے ذریعے سے ہم خدا کو دیکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تاحال ہم کوئی بھی طریقہ اپنا لیں خدا فطرتاً ہمیشہ ناقابلِ بیان رہے گا۔
غور طلب حوالہ جات: زبور 16 ؛صفنیاہ 3 : 14 ۔20 ؛یوحنا 8 : 31 ۔47 ؛1۔ یوحنا 4 :7 ۔ 21
عملی کام : آپ کس حد تک خُدا کی قُربت میں خود کو پاتے ہیں ؟اور یہ آپ کی ترجیحات پر کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے؟
دُعا :خدا ئے علیم تیرا شکر ہو کہ تو ُ ہمشہ میرے ساتھ رہتا ہے ۔آمین
برنباس ٹوڈے ٹیم کی لی گئی تصویر۔